IslamicDate.com.pk
Your Islamic Date Resource

Chat Pat Bibi Ka Mojza

چٹ پٹ بی بی کا معجزہ

ایک بی بی نصرانی تھیں۔ گھر کی غریب اور گودی بھی اولاد سے خالی تھی۔ گھر میں سوائے شوہر کے اور کوئی نہ تھا۔ شوہر محنت مزدوری کر کے جو دن بھر کماتا تھا۔ اسی میں کھانے پینے کا انتظام کرتا تھا۔ یونہی گذر بسر ہوتی تھی، زیادہ تر فاقہ سےبسر ہوتی تھی لیکن میاں بیوی دونوں خدا پر شاکر رہ کر صبر سے کام لیتے تھے رفتہ رفتہ عمر بھی گزرتی گئی۔ اب ضعیفی کا وقت آنے لگا۔ دل ملول رہتا تھا۔ کیونکہ بعد ان کے آئندہ نسل باقی ، رہنے کی امید نہ تھی۔

ایک دن ایک ضعیفہ بی بی تشریف لا ئیں۔ پوچھا‘ کیوں بی بی نصرانی! تم کیوں آج کل اتنی غمگین رہا کرتی ہو‘ کوئی خاص بات ہو تو بیان کرو۔ یہ تو معلوم ہے کہ ضعیفی و غریبی ساتھ نہیں چھوڑتی ہے۔ اس کا تم کو غم بھی نہیں ہے۔ ہمیشہ تم نے صبر و شکر سے زندگی بسر کی ہے۔ اب کیا نئی بات ہے؟ بی بی نصرانی نے جواب دیا۔ بی بی کیا کہوں قسمت کی بات ہے۔ غریبی تو غریبی ہی ہے میں اس عمر تک اولاد سے بھی محروم ہوں بی بی ضعیفہ نے کہا ‘بیٹی غم نہ کرو اللہ کے اختیار میں سب کچھ ہے۔ وہ چاہے جسے مردہ کر دے جسے چاہے زندہ کر دے سوکھے درخت کو ہرا کر دے‘ بے اولاد کو صاحب اولا د کر دے۔

اچھا تم چَٹ پَٹ بی بی کی کہانی مان لو۔ خداوند تعالی تمہاری یہ مشکل آسان کر دے گا ۔ یہ کہہ کر بی بی ضعیف تشریف لے گئیں۔نصرانی بی بی نے فوراً کہانی مان لی اور خدا نے اس کو ایک فرزند حسین وجمیل عطا فرمایااولاد سے گھر آباد ہو گیا۔ نصرانی بی بی کومنت پوری کرنے کا خیال آیا۔ وہ فکرمند ہوئی کہ کیونکر منت پوری کروں۔ضعیفہ سے ترکیب بھی نہ پوچھی کہ جب منت پوری ہو جائے تو کس طرح منت اُتاری جائے۔ اتنے میں شام ہونے لگی، دیکھا کہ ایک نقاب پوش ضعیفہ تشریف لائیں۔

اور بولی، تم نے ابھی تک منّت نہیں اُتاری؟ نصرانی عورت ان کے قدموں میں گر پڑی اور گڑگڑا کر بولی! میں آپ کو برابر یاد کرتی تھی خدا کا شکر ہے کہ آپ تشریف لے آئیں۔ آپ کی بتلائی ہوئی منّت سے آج میری گود میں ایک بچہ نظر آ رہا ہے۔ مگر میں نے آپ سے منّت اتارنے کی ترکیب نہیں پوچھی تھی۔ اب آپ بتا ئیں۔ کیوں کر منّت اتاروں؟ بی بی ضعیفہ نے کہا پانچ ڈلی منگا ؤ اور کہانی جو کہوں وہ بغور سُن لو ڈلی کو کاٹ ڈالو کہانی کہنے والے کو دو حصہ کہانی سننے والے کو بھی دو حصہ اور لانے والے کو ایک حصہ تقسیم کر دو پھر بی بی ضعیفہ نےکہانی کہنی شروع کر دی۔

ایک روز امیر المومنین کچھ آٹا جؤ کل لائے اور جناب فاطمہ زہرا ؑ کو دیا کہ اس کی روٹیاں تیار کروآج تمہارے والدمحترم رسول خداصلى الله عليه وآلہ وسلم کو میں نے کھانے پر مدعو کیا ہے۔ جناب سیّدہ نے خوشی خوشی آٹا خمیر کیا اور روٹیاں تیار کیں۔ جناب رسول صلى الله عليه وآلہ وسلم بعد نماز مغرب تشریف لائے جناب سیّدہ نے دسترخوان لگایا۔ محسن پاک باپ نے ایک ساتھ کھانا تناول فرمایا!اور جب پیغمبرصلى الله عليه وآلہ وسلم رخصت ہونے لگے تو جناب سیّدہ نے عرض کی بابا جان اسی طرح کل میری طرف سے کھانا نوش فرمائیے گا آنحضرت صلى الله عليه وآلہ وسلم نے قبول فرمایا۔ پھر حضرت علی عليه السلام کہیں سے جَو کا آٹا لائے اور جناب سیّدہ نے کھانا تیارکیا۔ بعد نماز مغرب پھر رسول خدا تشریف لائے اور سب کے ساتھ کھاناکھایا۔

جب آپؐ واپس جانے لگے تو حضرت امام حسنؑ نے نہایت ادب سے عرض کی نانا جان! میری طرف سے بھی دعوت قبول فرمائیے ارشاد ہوا اچھا بیٹا ‘تمہاری دعوت بھی قبول ہے۔ پھر کھانے کے انتظامات ہوئے۔ اور جناب رسول کریم تشریف لائے اور کھانا تناول فرمایا جب واپسی کا ارادہ کیا ‘تو حضرت امام حسینؑ نے نانا جان کے گلے میں باہیں ڈال دیں اور بولے نانا جان کیا مجھے محروم رکھیں گے۔ نانا سمجھ گئے فر مایا بیٹا حسین تمہاری بھی دعوت قبول ہے۔

چنانچہ حسب دستور پھر سامان کھانے کے فراہم ہوئےاور نبی کریم ؐتشریف لائے۔ جب کھانےسے فراغت پا کر آپ رخصت ہونے لگے تو فضّہ (کنیز) دروازہ تک پہنچانے آئی اور دست ادب کو جوڑ کرعرض کی یا رسول اللہ‘ یہ کنیز بھی آرزومند ہے کہ حضور ؐکل میری طرف سے دعوت قبول فرما ئیں۔ حضرت محمد صلى الله عليه وآلہ وسلم نے دعوت قبول فرمالی۔ اتفاق سے فضّہ کو سامان خوردو نوش مہیّا نہ ہو سکے۔ ادھر شام ہونے کو قریب آئی مگر کسی سے اس سلسلہ میں کوئی تذکرہ نہ کیا۔ (وہ زمانہ ماہِ رمضان المبارک کا تھا) جب رسول خدا نماز مغرب سے فارغ ہو چکے تو جبریل امین نازل ہوئے اور فرمایا‘یا حبیبِ خدا آج آپ کا افطار فضّہ کے گھر پر ہے۔ رحمتِ دو عالم فوراً روانہ ہو گئے۔ دروازہ پر پہنچ کر دستک دی۔ اور بآواز بلند بیٹی کو مخاطب کر کے فرمایا اے بیٹی تم پر سلام ہو۔ جناب سیّدہ آواز پیچان کر دروازه تک آئی۔ مگر کسی قدر متعجب بھی تھیں کہ آج بابا جان نے کیوں تکلیف فرمائی ۔ کیونکہ افطار کے لئے کچھ نہ تھا۔

الغرض رسول خدا اندر تشریف لائے تھوڑی دیر کے بعد بیٹی سے بولے اے پارۂ جگر فاطمہ! آج ہم فضّہ کے مہمان ہیں۔ جناب امیر علی عليه السلام نے فضّہ کو الگ بلا کر فرمایا اے فضّہ تو نے رسول خداصلى الله عليه وآلہ وسلم کو کھانے کی دعوت دی لیکن ہم سے ذکر بھی نہیں کیا۔ فضّہ نے عرض کی یا امیر المومنین مجھے گھر کے حالات خوب معلوم ہیں اس لئے تذکرہ نہ کر سکی۔ سوچا تھا کہ میں خود انتظام کرونگی یہ کہہ کر فضّہ نے وضو کیا اور گوشے میں جا کر دو رکعت نماز حاجت ادا کی اور دونوں ہاتھ دعا کےلیئے بلند کئے اور گڑ گڑا کر بولی اے خالق ہر بلند و پستی! میں تیرے حبیب کی بیٹی کی کنیز ہوں اور تیرے حبیب کو اپنا مہمان کیا ہے تو جانتا ہے کہ میں کیا ہوں اسی لئے تجھے تیری کبریائی کا واسطہ دیتی ہوں کہ میری لاج رکھ لے اور اپنے محبوب اور ان کی آل پاک سے سرخرو کر دے۔

ابھی فضّہ دعا کر رہی تھی کہ سارا گھر کھانے کی خوشبو سے مہک اٹھا۔ پھر فضّہ نے دیکھا کہ پہلو میں خوان نعمت رکھا ہے۔فوراًوہ خوان لیکر فضّہ حاضر خدمت با برکت رسول ہوئی ۔ جناب ختمی مرتبت نے دریافت فرمایا یہ کھانا کہاں سے پایا ؟ فضّہ نے جواب میں عرض کیا۔ جس کے بھروسے پر میں نے حضورصلى الله عليه وسلم کو مدعو کیا تھا۔اُسی نے بھیجا ہے۔ یعنی یہ جنت میں سے آیا ہے۔


Share this page: