شہرِ ایران میں ایک لکڑہارا رہتا تھا جو بہت ہی غریب تھا۔ وہ لکڑیاں بیچ کر اپنا اور اپنے بال بچوں کا گزارا کرتا تھا۔ ایک دن اُس نے اپنی بیٹی سے کہابیٹی ہمسائے کے گھر سے سگریٹ سلگا لاؤ۔ جب لڑکی سگریٹ سلگانے کے لیےگئی تو اُس نے دیکھا کہ ہمسائی عورت کلیجی بھون رہی ہے۔ اس لڑکی کا دل کلیجی کھانے کو چاہا، لیکن ہمسائی نے کوئی توجہ نہ دی۔ لڑکی دروازے سے باہر آ کر سگریٹ کو بجھا دیتی ہے اور دوبارہ سلگانے کے لیے اندر چلی جاتی ہے۔ یہ اس لیے کیا کہ شاید اس بار ہمسائی عورت کلیجی کھانے کو دے دے، مگر پھر بھی اُس نے کلیجی دینے کی زحمت نہ کی۔
لڑکی مایوس ہو کر گھر چلی آئی، اتنی دیر میں سگریٹ سلگ کر آدھا رہ چکا تھا۔ جب باپ کو سگریٹ دیا تو اس نے کہا بیٹی، خود آدھا سگریٹ پی آئی ہو؟ کہا نہیں ابا جان، ہمسائی کلیجی بھون رہی تھی اور میرا دل کھانے کو چاہتا تھا، اس لیے میں بار بار سگریٹ کو بجھا کر جلانے کے لیے جاتی تھی کہ شاید مجھے وہ عورت کلیجی کھانے کے لیے دے، مگر اس نے مجھے نہیں دی۔ بابا جان، آپ میرے لیے کل ضرور کلیجی لائیں۔ لکڑہاراے نے کہا بیٹی، ہمارے گھر میں تو اتنے پیسے نہیں کہ ایک ماچس ہی خریدی جا سکے، میں کلیجی کہاں سے لاؤں؟ لڑکی نے کہا بابا جان، کل ضرور کلیجی لائیں۔ لکڑہاراے نے کہا اچھا بیٹی، دو دن کچھ نہ کھاؤ، میں دو دن کی لکڑیاں جمع کر کے بیچوں گا اور تم کو کلیجی لا دوں گا۔ لڑکی نے بھی منظور کر لیا۔
لکڑہارا جنگل میں جا کر لکڑیاں جمع کر کے رکھ آیا۔ دوسرے دن جب جنگل میں گیا تو دیکھا کہ لکڑیاں جو اُس نے جمع کی تھیں، جل کر راکھ ہو چکی تھیں۔ وہ رونے لگا، روتے روتے غش کر گیا۔ عالمِ غش میں دیکھا کہ ایک نقاب پوش کھڑے ہیں (صلوۃ) اور زمین سے چند سنگریزے اُٹھا کر کہتے ہیں یہ لو جب ان کو بھناؤ تو مشکل کشا کا ختم ضرور دلانا (صلوۃ)۔
جب لکڑہارا ہوش میں آیا تو دیکھا کہ وہ سَنگریزے اس کے ہاتھ میں تھے۔ اس نے وہ جیب میں ڈال لیے اور گھر چلا آیا۔ گھر جا کر دروازے کے پیچھے چھپ گیا۔ بیٹی نے دیکھا کہ باپ کو گئے ہوئے دیر ہو گئی ہے، وہ باہر آئی۔ دیکھا کہ باپ دروازے کے پیچھے چھپا ہوا ہے۔ کہا بابا جان، اندر آ جائیے۔ باپ نے کہابیٹی، مجھے تم سے شرم آتی ہے، وعدہ کر کے گیا تھا کہ تمہارے لیے ضرور کلیجی لاؤں گا، لیکن تمام لکڑیاں جل کر راکھ ہو گئیں۔
بیٹی نے کہابابا جان، آپ اندر آ جائیں، خداوندِ کریم ہمیں بہت کچھ دے گا۔ جب شام ہوئی، لکڑہارے نے جیب میں ہاتھ ڈالا، وہی سنگریزے نکال کر بیٹی کو دیےلو بیٹا، ان سے کھیلو۔ لڑکی نے لے کر ایک کمرے میں پھینک دیے۔ صبح جب لکڑہارے کی بیوی نماز پڑھنے کے لیے اٹھی تو دیکھا کہ کمرے میں ہر طرف روشنی ہی روشنی دکھائی دیتی ہے۔ ڈر کر باہر آئی، لکڑہارے سے کہاہمارے کمرے میں ہر طرف آگ لگی ہوئی ہے! لکڑہارا نے اٹھ کر دیکھا کمرے میں جواہرات چمک رہے ہیں (صلوٰۃ)۔ اِس نے ان پر چادر ڈال دی۔ صبح ایک ہیرا لے کر جوہری کے پاس گیا اور کہایہ ہیرا تم خرید لو، اس کی قیمت مجھے دے دو۔ جوہری بیش قیمتی ہیرا دیکھ کر حیران رہ گیا۔ لکڑہارے سے کہاگھر سے بوریاں لے آؤ، جس قدر تم سے اُٹھائی جائیں، بھر کر لے جاؤ، یہ اس ہیرے کی قیمت ہے۔ لکڑہارا جتنی بوریاں اُٹھا سکتا تھا، بھر کر لے گیا اور اُس زمین کو خرید لیا جہاں مولا مشکل کشا نےاسے سنگریزے دیے تھے (صلوٰۃ)۔
اس نے وہاں ایک نہایت ہی شاندار محل بنوایا، جس میں نہایت آرام اور آسائش کی زندگی بسر کرنے لگا۔ ایک دن لکڑہارا اپنی بیوی سے کہنے لگااب مجھ پر حج واجب ہو گیا ہے، میں حج کرنے جا رہا ہوں۔ میرے بعد ہر مہینے مولا مشکل کشا کا ختم ضرور دلانا۔ چند دنوں کے بعد لکڑہارے کی بیوی نے اپنی بیٹی سے کہاجاؤ، سات قسم کی مٹھائی لاؤ، اس پر مولا مشکل کشا کا ختم دلائیں۔ بیٹی نے کہااماں، اب تو ہم بہت ہی امیر ہو گئے ہیں، ہم نہیں، رنگ برنگی مٹھائی پر ختم دلاتے!والدہ خاموش ہو گئیں۔ کچھ دنوں کے بعد دونوں ماں بیٹی حمام میں غسل کرنے کے لیے گئیں کہ یکایک شور ہوا کہ حمام کو خالی کیا جائے کیونکہ بادشاہ کی ملکہ اور بیٹی حمام میں غسل کرنے کے لیے تشریف لا رہی ہیں! چنانچہ سب لوگ چلے گئے۔
لیکن لکڑ ہارے کی بیٹی اور بیوی نہ گئیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم تو ملکہ سے بھی زیادہ امیر ہیں، ہم نہیں جائیں گے۔ اسی اثناء میں ملکہ اور شہزادی تشریف لائیں۔ انہوں نے سُنا ہوا تھا کہ ایک لکڑ ہارا بہت ہی امیر ہو گیا ہے۔ جب لکڑ ہارے کی لڑکی حمام سے باہر نکلی، تو شہزادی نے دیکھا کہ اس کے گلے میں بہت ہی قیمتی موتیوں کا ہار ہے۔ شہزادی نے پوچھا یہ ہار تم نے کہاں سے لیا ہے؟ لکڑ ہارے کی لڑکی نے کہاآؤ، ہم تم سہیلیاں بن جائیں۔ یہ ہار تم لے لو، میں گھر جا کر دوسرا پہن لوں گی۔ شہزادی نے خوش ہو کر کہا ہم تم سہیلیاں بن گئی ہیں، اس لیے تم ہمارے گھر ضرور آیا کرو۔
ایک دن لکڑ ہارے کی لڑکی شہزادی سے ملنے کے لیے گئی تو دیکھا کہ شہزادی غسل کر رہی تھی۔ جب شہزادی غسل کر کے باہر آئی تو نوکرانی سے کہا کہ کھونٹی سے میرا ہار بھی لاؤ۔ نوکرانی نے کھونٹی پر دیکھا تو ہار غائب تھا۔ شہزادی کو فوراً اطلاع دی گئی۔ شہزادی نے کہا ہار تم نے چرا لیا ہے نوکرانی نے کہا کہ آج تک میں نے آپ کی کوئی چیز چوری نہیں کی یہ آپ کی سہیلی کا کام ہے۔ چناچہ بادشاہ کو بلایا گیالکڑ ہارے کی بیوی اور بیٹی سے پوچھ گچھ کی۔ تو انہوں نے کہا کہ جب ہم بہت غریب تھے تب ہم نے چوری نہیں کی، تواب ہم چوری کیوں کریں گے؟ لیکن بادشاہ کو ان کی باتوں پر یقین نہ آیا۔ اسی وقت حکم دیا گیا کہ دونوں ماں بیٹی کو قید خانے میں ڈال دیا جائے، اور ان کے گھر کے آگے ایک دیوار کھڑی کر دی جائے۔ ادھر لکڑ ہارا حج کے لیے گیا تھا، راستے میں ڈاکوؤں نے اسے لوٹ لیا۔ وہ بغیر حج کیے واپس آ گیا۔ آ کر دیکھا کہ محل کے آگے دیوار کھڑی ہے۔ اس نے لوگوں سے پوچھا کہ میرے اہل خانہ کہاں ہیں اور میرے محل کے آگے یہ دیوار کیوں کھڑی کی گئی ہے؟ لوگوں نے سارا واقعہ بیان کر دیا۔
لکڑ ہارا بادشاہ کے پاس آیا اور تمام ماجرا سنایا۔ کہا کہ چوری تو انہوں نے اس وقت بھی نہیں کی تھی جب ہم بہت غریب تھے، اب کیوں کریں گی، لیکن بادشاہ کسی طرح ماننے کو تیار نہ ہوا۔ لکڑ ہارے نے کہا کہ اگر آپ انہیں قید سے رہا نہیں کریں گے تو مجھے بھی قید کر لیجیے، کیونکہ میری غیرت گوارا نہیں کرتی کہ میری بیوی اور بیٹی قید میں ہوں اور میں آزاد رہوں۔ چنانچہ لکڑ ہارے کو بھی قید کر لیا گیا۔ جب رات ہوئی تو لکڑ ہارے نے قید خانے میں اپنی بیوی اور بیٹی کو بلایا اور پوچھا،میرے جانے کے بعد کیا تم مولا مشکل کشا کا ختم دلاتی رہی ہو؟ انہوں نے شرمندگی سے جواب دیا، نہیں۔ لکڑ ہارے نے افسوس سے سر ہلایا اور کہا، بس! یہی کوتاہی اس مصیبت کی وجہ بنی ہے۔ پھر وہ تمام رات روتے رہے، توبہ کرتے رہے اور اللہ سے معافی مانگتے رہے۔ جب تھکن سے نیند آ گئی تو عالمِ خواب میں دیکھا کہ وہی نقاب پوش شخصیت تشریف لائے (صلوٰۃ)۔ انہوں نے فرمایا، تم نذر دینا بھی بھول گئے تھے، اس لئے عتابِ اِلٰہی کا نزول ہوا ہے۔ لکڑ ہارے نے عرض کیا، میرے پاس نذر دینے کے لیے کچھ بھی نہیں، پیسے تک نہیں بچے۔ نقاب پوش نے فرمایا، اپنا بستر اٹھاؤ، اس کے نیچے سے پانچ پیسے ملیں گے۔ ان سے شیر ینی منگوا کر مولا مشکل کشا کا ختم دلاؤ، انشاءاللہ تمام مصیبت ٹل جائے گی۔
صبح جب لکڑ ہارا بیدار ہوا اپنا بستر اٹھایا پانچ پیسے بر آمد ہوئے قید خانے کے دروازے پر کھڑا ہو گیا ایک نو جوان لڑکا گھوڑے پرسوار آتا ہوا دیکھا اس نےکہالڑ کے مجھے پانچ پیسے کی شیرینی لادو اس نے کہا بوڑھا قید بھی ہو گیا ہے پھر بھی شیرینی کھاتا ہے۔ میری تو آج شادی ہے میں بازار سے مہندی وغیرہ خرید نے جارہا ہوں اس لیے میں تمہارا کام نہیں کر سکتا ۔ لڑکا یہ کہہ کر ابھی چند قدم ہی بڑھا تھا کہ گھوڑے سے گرا اور گرتے ہی مر گیا۔ جب لڑکے کے باپ کو معلوم ہوا کہ میرا جوان بیٹا مر گیا تو وہ روتا ہوا قید خانہ کے دروازے سے گزرا لکڑ ہارے نے وہی سوال کیا کہ مجھے پانچ پیسے کی شیرینی لا دو۔ اس آدمی نے کہا میرے ساتھ جو ہونا تھا وہ ہو گزرا ہے۔ میں کیوں نہ اس قیدی کا کام کر جاؤں چنانچہ اسے شیرینی لا کردی اس پر مولا مشکل کشا کا ختم دلا یا لکڑ ہارے نے اس آدمی سے پوچھا کہ تم اتنےافسردہ کیوں ہو اس نے کہا کہ میرا جوان لڑکا مر گیا ہے اور آج اس کی شادی تھی لکڑ ہارے نے کچھ شیرینی اسے دی اور کہا کہ اس کو پانی میں حل کر کے لڑکے کے منہ میں ڈال دو چنانچہ اس آدمی نے ایسا ہی کیا جو نہی پانی کا قطرہ لڑکے کے حلق میں اتر اکلمہ پڑھتا ہوا اُٹھ بیٹھا۔
ادھر دوپہر کے وقت جب باد شاہ کھانا کھانے کے لیے بیٹھا تو دیکھا کہ ایک خوبصورت چڑیا منہ میں ہار لیے آرہی ہے چڑیا نے ہار اس کھونٹی پر لٹکا دیا با دشاہ دیکھ کر حیران ہوا کہنے لگا اس میں ضرور کوئی راز پوشیدہ ہے۔ اسی وقت لکڑ ہارے کو بلا یا لکڑ ہارے نے رات کا تمام واقعہ بادشاہ کے گوش گزار کیا۔بادشاہ بہت خوش ہوا تاج اتار کر لکڑ ہارے کے قدموں پر رکھ دیا اور کہا آپ میرے باپ اور میں آپ کا بیٹا ہوں جب تک زندہ رہوں گا آپ کی خدمت کروں گا ( صلوۃ)
اَللَّهُمَّ صَلِىّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَّالِ مُحَمَّد
پروردگارِ عالم! بطفیل اپنے حبیبِ مکرم محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، اور ان کی آلِ پاک، خصوصاً حضرت علی شیرِ خدا مشکلکشائے دو جہاں، جس طرح تُو نے لکڑ ہارے کی مشکل کو اپنی رحمت سے حل فرمایا، اسی طرح تمام مومنین و مومنات کی دینی و دنیاوی جائز حاجات کو بھی بر لا، ہمیں درستیِ ایمان اور دنیا و آخرت کی فلاح عطا فرما۔